کراچی (حالات ڈاٹ کام) پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں ایک پرانے بنگلے میں کچھ افغانیوں کو دکھایاگیا ہے۔
سوشل میڈیا پر کچھ لوگوں کے کمنٹس تھے کہ یہ افغان طالبان ہیں جنہوں نے کراچی کے علاقے گرومندر میں اسلامیہ کالج کے قریب ایک عمارت پر قبضہ کرلیا ہے
،حالات ڈاٹ کام نے اس سلسلے میں اپنی تحقیق کی تو اس کے علم میں یہ بات آئی کہ یہ عمارت طویل عرصے سے افغانستان حکومت کے زیر استعمال ہے اور جب نوے کی دہائی میں افغانستان میں ملاعمر کی حکومت آئی تو اس وقت بھی یہ عمارت افغانی طالبان کے نمائندوں کے استعمال میں تھی.
اس سلسلے میں حالات ڈاٹ کام نے بین الاقوامی امور پر گہری نظر رکھنے والے سینئر صحافی فیض اللہ سواتی سے رابطہ کیا تو انہوں نے اس عمارت کےبارے میں تفصیلات سے آگاہ کیا
فیض اللہ سواتی کے مطابق نوے کے عشرے کی وسط میں جب ملاعمر کی حکومت افغانستان میں قائم ہوئی تو اس افغانی حکومت کے دور میں زخمی طالبان کا اس عمارت میں علاج ہوتا تھا اور اس وقت یہ عمارت ملاعمر کی حکومت کے نمائندوں کے استعمال میں تھی-
پھرملاعمر کے جانے کے بعد اس عمارت پر حامد کرزئی اور اشرف غنی کی نمائندوں کا قبضہ رہا ، لیکن اب ایک بار پھر افغانستان پر طالبان کی حکومت آنے کے بعد اس عمارت پر قبضے کی جنگ شروع ہوگئی ہے۔
سینئر صحافی نعمت خان نے بھی بتایا کہ نوے کی دہائی میں اس عمارت کو خالی کراکے افغان طالبان حکومت کے حوالے کرنے میں جمعیت علمائے اسلام کے کارکنان نے مدد کی تھی۔
تاہم اس خبر میں کوئی صداقت نہیں ہے کہ اس عمارت پر تحریک طالبان پاکستان کا قبضہ ہے ، اس عمارت پر اس وقت تنازعہ جاری ہے اور ہوسکتا ہے عنقریب اس مسئلے کا حل نکال لیا جائے۔
واضح رہے کہ گذشتہ چند دنوں سے سوشل میڈیا پر اس عمارت پر ٹی ٹی پی کے قبضے کے حوالے سے سنسنی خیز خبریں پھیلائی جارہی ہیں ، لیکن اب اس معاملے کا مقامی انتظامیہ نے بھی نوٹس لے لیا ہے تاہم سرکاری سطح پرکسی قسم کی کوئی وضاحتی بیان جاری نہ ہونے سے عوام میں بدستور بے چینی موجود ہے۔